EN हिंदी
محمد علوی شیاری | شیح شیری

محمد علوی شیر

116 شیر

اندھیرا ہے کیسے ترا خط پڑھوں
لفافے میں کچھ روشنی بھیج دے

محمد علوی




اندھیری راتوں میں دیکھ لینا
دکھائی دے گی بدن کی خوشبو

محمد علوی




آنکھیں کھولو خواب سمیٹو جاگو بھی
علویؔ پیارے دیکھو سالا دن نکلا

محمد علوی




آگ اپنے ہی لگا سکتے ہیں
غیر تو صرف ہوا دیتے ہیں

محمد علوی




آج پھر مجھ سے کہا دریا نے
کیا ارادہ ہے بہا لے جاؤں

محمد علوی




آسمان پر جا پہنچوں
اللہ تیرا نام لکھوں

محمد علوی




اب کسی کی یاد بھی آتی نہیں
دل پہ اب فکروں کے پہرے ہو گئے

محمد علوی




اب نہ غالبؔ سے شکایت ہے نہ شکوہ میرؔ کا
بن گیا میں بھی نشانہ ریختہ کے تیر کا

محمد علوی




اب تو چپ چاپ شام آتی ہے
پہلے چڑیوں کے شور ہوتے تھے

محمد علوی