اک لڑکا تھا اک لڑکی تھی
آگے اللہ کی مرضی تھی
محمد علوی
اک یاد رہ گئی ہے مگر وہ بھی کم نہیں
اک درد رہ گیا ہے سو رکھنا سنبھال کر
محمد علوی
اس بھری دنیا سے وہ چل دیا چپکے سے یوں
جیسے کسی کو بھی اب اس کی ضرورت نہ تھی
محمد علوی
کانٹے کی طرح سوکھ کے رہ جاؤ گے علویؔ
چھوڑو یہ غزل گوئی یہ بیماری بری ہے
محمد علوی
کبھی تو ایسا بھی ہو راہ بھول جاؤں میں
نکل کے گھر سے نہ پھر اپنے گھر میں آؤں میں
محمد علوی
کہاں بھٹکتے پھرو گے علویؔ
سڑک سے پوچھو کدھر گئی ہے
محمد علوی
کہیں کھو نہ جائے قیامت کا دن
یہ اچھا سمے ہے ابھی بھیج دے
محمد علوی
کھڑکیوں سے جھانکتی ہے روشنی
بتیاں جلتی ہیں گھر گھر رات میں
محمد علوی
کسی سے کوئی تعلق رہا نہ ہو جیسے
کچھ اس طرح سے گزرتے ہوئے زمانے تھے
محمد علوی