اسے میں نے بھی کل دیکھا تھا علویؔ
نئے کپڑے پہن کے جا رہا تھا
محمد علوی
اس سے ملے زمانہ ہوا لیکن آج بھی
دل سے دعا نکلتی ہے خوش ہو جہاں بھی ہو
محمد علوی
اس سے بچھڑتے وقت میں رویا تھا خوب سا
یہ بات یاد آئی تو پہروں ہنسا کیا
محمد علوی
اس سے بھی مل کر ہمیں مرنے کی حسرت رہی
اس نے بھی جانے دیا وہ بھی ستم گر نہ تھا
محمد علوی
ان کو گناہ کرتے ہوئے میں نے جا لیا
پھر ان کے ساتھ میں بھی گنہ گار ہو گیا
محمد علوی
ان دنوں گھر سے عجب رشتہ تھا
سارے دروازے گلے لگتے تھے
محمد علوی
تڑا مڑا ہے مگر خدا ہے
اسے تو صاحب سنبھال رکھیے
محمد علوی
ترا نہ ملنا عجب گل کھلا گیا اب کے
ترے ہی جیسا کوئی دوسرا ملا مجھ کو
محمد علوی
روز کہتا ہے ہوا کا جھونکا
آ تجھے دور اڑا لے جاؤں
محمد علوی