EN हिंदी
محمد علوی شیاری | شیح شیری

محمد علوی شیر

116 شیر

نیا سال دیوار پر ٹانگ دے
پرانے برس کا کلنڈر گرا

محمد علوی




نظروں سے ناپتا ہے سمندر کی وسعتیں
ساحل پہ اک شخص اکیلا کھڑا ہوا

محمد علوی




آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں
ٹیبل پر سر رکھ کر سو جاتا ہوں میں

محمد علوی




پہلی بوند گری ٹپ سے
پھر سب کچھ پانی میں تھا

محمد علوی




پر تول کے بیٹھی ہے مگر اڑتی نہیں ہے
تصویر سے چڑیا کو اڑا دینا چاہیئے

محمد علوی




پرندے دور فضاؤں میں کھو گئے علویؔ
اجاڑ اجاڑ درختوں پہ آشیانے تھے

محمد علوی




رات کون آیا تھا
کر گیا سحر روشن

محمد علوی




رات ملی تنہائی ملی اور جام ملا
گھر سے نکلے تو کیا کیا آرام ملا

محمد علوی




رات پڑے گھر جانا ہے
صبح تلک مر جانا ہے

محمد علوی