نیند راتوں کی اڑا دیتے ہیں
ہم ستاروں کو دعا دیتے ہیں
روز اچھے نہیں لگتے آنسو
خاص موقعوں پہ مزا دیتے ہیں
اب کے ہم جان لڑا بیٹھیں گے
دیکھیں اب کون سزا دیتے ہیں
ہائے وہ لوگ جو دیکھے بھی نہیں
یاد آئیں تو رلا دیتے ہیں
دی ہے خیرات اسی در سے کبھی
اب اسی در پہ صدا دیتے ہیں
آگ اپنے ہی لگا سکتے ہیں
غیر تو صرف ہوا دیتے ہیں
کتنے چالاک ہیں خوباں علویؔ
ہم کو الزام وفا دیتے ہیں
غزل
نیند راتوں کی اڑا دیتے ہیں
محمد علوی