لبوں پر یوں ہی سی ہنسی بھیج دے
مجھے میری پہلی خوشی بھیج دے
اندھیرا ہے کیسے ترا خط پڑھوں
لفافے میں کچھ روشنی بھیج دے
میں پیاسا ہوں خالی کنواں ہے تو کیا
صراحی لیے اک پری بھیج دے
بہت نیک بندے ہیں اب بھی ترے
کسی پر تو یارب وحی بھیج دے
کہیں کھو نہ جائے قیامت کا دن
یہ اچھا سمے ہے ابھی بھیج دے
غزل
لبوں پر یوں ہی سی ہنسی بھیج دے
محمد علوی