کھڑکیوں سے جھانکتی ہے روشنی
بتیاں جلتی ہیں گھر گھر رات میں
محمد علوی
کسی سے کوئی تعلق رہا نہ ہو جیسے
کچھ اس طرح سے گزرتے ہوئے زمانے تھے
محمد علوی
کتنا مشکل ہے زندگی کرنا
اور نہ سوچو تو کتنا آساں ہے
محمد علوی
کچھ تو اس دل کو سزا دی جائے
اس کی تصویر ہٹا دی جائے
محمد علوی
لوگ کہتے ہیں کہ مجھ سا تھا کوئی
وہ جو بچوں کی طرح رویا تھا
محمد علوی
میں ناحق دن کاٹ رہا ہوں
کون یہاں سو سال جیا ہے
محمد علوی
میں خود کو مرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوں
یہ ڈر بھی ہے کہ مری آنکھ کھل نہ جائے کہیں
محمد علوی
مانا کہ تو ذہین بھی ہے خوب رو بھی ہے
تجھ سا نہ میں ہوا تو بھلا کیا برا ہوا
محمد علوی
رات کون آیا تھا
کر گیا سحر روشن
محمد علوی