EN हिंदी
محمد علوی شیاری | شیح شیری

محمد علوی شیر

116 شیر

اس سے ملے زمانہ ہوا لیکن آج بھی
دل سے دعا نکلتی ہے خوش ہو جہاں بھی ہو

محمد علوی




اسے میں نے بھی کل دیکھا تھا علویؔ
نئے کپڑے پہن کے جا رہا تھا

محمد علوی




اتار پھینکوں بدن سے پھٹی پرانی قمیص
بدن قمیص سے بڑھ کر کٹا پھٹا دیکھوں

محمد علوی




وہ جنگلوں میں درختوں پہ کودتے پھرنا
برا بہت تھا مگر آج سے تو بہتر تھا

محمد علوی




یار آج میں نے بھی اک کمال کرنا ہے
جسم سے نکلنا ہے جی بحال کرنا ہے

محمد علوی




یکہ الٹ کے رہ گیا گھوڑا بھڑک گیا
کالی سڑک پہ چاند سا چہرہ چمک گیا

محمد علوی




یہ کہاں دوستوں میں آ بیٹھے
ہم تو مرنے کو گھر سے نکلے تھے

محمد علوی




زمیں چھوڑنے کا انوکھا مزا
کبوتر کی اونچی اڑانوں میں تھا

محمد علوی