EN हिंदी
اٹھی کچھ ایسے بدن کی خوشبو | شیح شیری
uThi kuchh aise badan ki KHushbu

غزل

اٹھی کچھ ایسے بدن کی خوشبو

محمد علوی

;

اٹھی کچھ ایسے بدن کی خوشبو
سمٹ گئی پیرہن کی خوشبو

سحر ہوئی تو عجب ادا سے
کلی میں اتری کرن کی خوشبو

ہواؤں سے دوستی نہ کرنا
لٹا نہ دینا چمن کی خوشبو

مزے اڑاؤ گے ہجرتوں کے
لیے پھرو گے وطن کی خوشبو

اندھیری راتوں میں دیکھ لینا
دکھائی دے گی بدن کی خوشبو

یہ کون علویؔ چلا گیا ہے
سمیٹ کر انجمن کی خوشبو