EN हिंदी
اور بازار سے کیا لے جاؤں | شیح شیری
aur bazar se kya le jaun

غزل

اور بازار سے کیا لے جاؤں

محمد علوی

;

اور بازار سے کیا لے جاؤں
پہلی بارش کا مزا لے جاؤں

کچھ تو سوغات دوں گھر والوں کو
رات آنکھوں میں سجا لے جاؤں

گھر میں ساماں تو ہو دلچسپی کا
حادثہ کوئی اٹھا لے جاؤں

اک دیا دیر سے جلتا ہوگا
ساتھ تھوڑی سی ہوا لے جاؤں

کیوں بھٹکتا ہوں غلط راہوں میں
خواب میں اس کا پتہ لے جاؤں

روز کہتا ہے ہوا کا جھونکا
آ تجھے دور اڑا لے جاؤں

آج پھر مجھ سے کہا دریا نے
کیا ارادہ ہے بہا لے جاؤں

گھر سے جاتا ہوں تو کام آئیں گے
ایک دو اشک بچا لے جاؤں

جیب میں کچھ تو رہے گا علویؔ
لاؤ تم سب کی دعا لے جاؤں