اجالے گرمئ رفتار کا ہی ساتھ دیتے ہیں
بسیرا تھا جہاں اپنا وہیں تک آفتاب آیا
شکیل بدایونی
تم پھر اسی ادا سے انگڑائی لے کے ہنس دو
آ جائے گا پلٹ کر گزرا ہوا زمانہ
شکیل بدایونی
تجھ سے برہم ہوں کبھی خود سے خفا
کچھ عجب رفتار ہے تیرے بغیر
شکیل بدایونی
ترک مے ہی سمجھ اسے ناصح
اتنی پی ہے کہ پی نہیں جاتی
شکیل بدایونی
سنا ہے زندگی ویرانیوں نے لوٹ لی مل کر
نہ جانے زندگی کے ناز برداروں پہ کیا گزری
شکیل بدایونی
ستم نوازئ پیہم ہے عشق کی فطرت
فضول حسن پہ تہمت لگائی جاتی ہے
شکیل بدایونی
صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات
کرتے ہیں بندگی بھی جہنم کے ڈر سے ہم
شکیل بدایونی
بزدلی ہوگی چراغوں کو دکھانا آنکھیں
ابر چھٹ جائے تو سورج سے ملانا آنکھیں
would be cowardice to stare down at the flame
let the clouds disperse then look upon the sun
شکیل بدایونی
ہائے وہ زندگی کی اک ساعت
جو تری بارگاہ میں گزری
شکیل بدایونی