کس سے جا کر مانگیے درد محبت کی دوا
چارہ گر اب خود ہی بے چارے نظر آنے لگے
شکیل بدایونی
خوش ہوں کہ مرا حسن طلب کام تو آیا
خالی ہی سہی میری طرف جام تو آیا
شکیل بدایونی
کھل گیا ان کی آرزو میں یہ راز
زیست اپنی نہیں پرائی ہے
شکیل بدایونی
آپ جو کچھ کہیں ہمیں منظور
نیک بندے خدا سے ڈرتے ہیں
شکیل بدایونی
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
شکیل بدایونی
کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دفعتاً تغافل
مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر
شکیل بدایونی
کافی ہے مرے دل کی تسلی کو یہی بات
آپ آ نہ سکے آپ کا پیغام تو آیا
شکیل بدایونی
کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر
پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں
شکیل بدایونی
جینے والے قضا سے ڈرتے ہیں
زہر پی کر دوا سے ڈرتے ہیں
شکیل بدایونی