غم عمر مختصر سے ابھی بے خبر ہیں کلیاں
نہ چمن میں پھینک دینا کسی پھول کو مسل کر
شکیل بدایونی
غم حیات بھی آغوش حسن یار میں ہے
یہ وہ خزاں ہے جو ڈوبی ہوئی بہار میں ہے
شکیل بدایونی
غم کی دنیا رہے آباد شکیلؔ
مفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے
شکیل بدایونی
دشمنوں کو ستم کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں
شکیل بدایونی
دنیا کی روایات سے بیگانہ نہیں ہوں
چھیڑو نہ مجھے میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں
شکیل بدایونی
دل کی طرف شکیلؔ توجہ ضرور ہو
یہ گھر اجڑ گیا تو بسایا نہ جائے گا
شکیل بدایونی
دل کی بربادیوں پہ نازاں ہوں
فتح پا کر شکست کھائی ہے
شکیل بدایونی
چھپے ہیں لاکھ حق کے مرحلے گم نام ہونٹوں پر
اسی کی بات چل جاتی ہے جس کا نام چلتا ہے
شکیل بدایونی
چاہئے خود پہ یقین کامل
حوصلہ کس کا بڑھاتا ہے کوئی
شکیل بدایونی