EN हिंदी
تری محفل سے اٹھ کر عشق کے ماروں پہ کیا گزری | شیح شیری
teri mahfil se uTh kar ishq ke maron pe kya guzri

غزل

تری محفل سے اٹھ کر عشق کے ماروں پہ کیا گزری

شکیل بدایونی

;

تری محفل سے اٹھ کر عشق کے ماروں پہ کیا گزری
مخالف اک جہاں تھا جانے بیچاروں پہ کیا گزری

سحر کو رخصت بیمار فرقت دیکھنے والو
کسی نے یہ بھی دیکھا رات بھر تاروں پہ کیا گزری

سنا ہے زندگی ویرانیوں نے لوٹ لی مل کر
نہ جانے زندگی کے ناز برداروں پہ کیا گزری

ہنسی آئی تو ہے بے کیف سی لیکن خدا جانے
مجھے مسرور پا کر میرے غم خواروں پہ کیا گزری

یہ زاہد ہیں انہیں کیا تجربہ اعجاز الفت کا
یہ تو جنت میں بھی پوچھیں گنہ گاروں پہ کیا گزری