زندگی ان کی چاہ میں گزری
مستقل درد و آہ میں گزری
رحمتوں سے نباہ میں گزری
عمر ساری گناہ میں گزری
ہائے وہ زندگی کی اک ساعت
جو تری بارگاہ میں گزری
سب کی نظروں میں سر بلند رہے
جب تک ان کی نگاہ میں گزری
میں وہ اک رہرو محبت ہوں
جس کی منزل بھی راہ میں گزری
اک خوشی ہم نے دل میں چاہی تھی
وہ بھی غم کی پناہ میں گزری
زندگی اپنی اے شکیلؔ اب تک
تلخیٔ رسم و راہ میں گزری
غزل
زندگی ان کی چاہ میں گزری
شکیل بدایونی