شکیلؔ اس درجہ مایوسی شروع عشق میں کیسی
ابھی تو اور ہونا ہے خراب آہستہ آہستہ
شکیل بدایونی
مجھے تو قید محبت عزیز تھی لیکن
کسی نے مجھ کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا
شکیل بدایونی
مشکل تھا کچھ تو عشق کی بازی کو جیتنا
کچھ جیتنے کے خوف سے ہارے چلے گئے
was difficult to win the game of love to a degree
and so I went on losing being afraid of victory
شکیل بدایونی
نہ پیمانے کھنکتے ہیں نہ دور جام چلتا ہے
نئی دنیا کے رندوں میں خدا کا نام چلتا ہے
شکیل بدایونی
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
شکیل بدایونی
نظر نواز نظاروں میں جی نہیں لگتا
وہ کیا گئے کہ بہاروں میں جی نہیں لگتا
شکیل بدایونی
پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش
منزل جاناں سے کوئی کامیاب آیا تو کیا
شکیل بدایونی
پی شوق سے واعظ ارے کیا بات ہے ڈر کی
دوزخ ترے قبضے میں ہے جنت ترے گھر کی
شکیل بدایونی
رحمتوں سے نباہ میں گزری
عمر ساری گناہ میں گزری
شکیل بدایونی