لمحہ لمحہ بار ہے تیرے بغیر
زندگی دشوار ہے تیرے بغیر
دل کی بے تابی کا عالم کیا کہوں
ہر نفس تلوار ہے تیرے بغیر
مجمع احباب و ارباب وفا
مجمع اغیار ہے تیرے بغیر
تجھ سے برہم ہوں کبھی خود سے خفا
کچھ عجب رفتار ہے تیرے بغیر
زندگی سے موت اک اک گام پر
بر سر پیکار ہے تیرے بغیر
عالم فرقت میں ذکر خواب کیا
نیند خود بیدار ہے تیرے بغیر
شام غم کروٹ بدلتا ہی نہیں
وقت بھی خوددار ہے تیرے بغیر
آ مسیحا آ کہ اب تیرا شکیلؔ
جان سے بے زار ہے تیرے بغیر
غزل
لمحہ لمحہ بار ہے تیرے بغیر
شکیل بدایونی