یہ بستی جانی پہچانی بہت ہے
یہاں وعدوں کی ارزانی بہت ہے
افتخار عارف
یہی لو تھی کہ الجھتی رہی ہر رات کے ساتھ
اب کے خود اپنی ہواؤں میں بجھا چاہتی ہے
افتخار عارف
یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا
اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے
افتخار عارف
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے
گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو
افتخار عارف
تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں
افتخار عارف
وفا کے باب میں کار سخن تمام ہوا
مری زمین پہ اک معرکہ لہو کا بھی ہو
افتخار عارف
اسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو
یہ التزام بھی عرض ہنر میں رکھا جائے
افتخار عارف
امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
افتخار عارف
وفا کی خیر مناتا ہوں بے وفائی میں بھی
میں اس کی قید میں ہوں قید سے رہائی میں بھی
افتخار عارف