EN हिंदी
کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے | شیح شیری
koi junun koi sauda na sar mein rakkha jae

غزل

کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے

افتخار عارف

;

کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے

ہوا بھی ہو گئی میثاق تیرگی میں فریق
کوئی چراغ نہ اب رہگزر میں رکھا جائے

اسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو
یہ التزام بھی عرض ہنر میں رکھا جائے

نہ جانے کون سے ترکش کے تیر کب چل جائیں
نشان مہر کمان سپر میں رکھا جائے

وفا گمان ہی ٹھہری تو کیا ضرور کہ اب
لحاظ ہمسفری بھی سفر میں رکھا جائے

ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش
عذاب دربدری کس کے گھر میں رکھا جائے

ہمیں بھی عافیت جاں کا ہے خیال بہت
ہمیں بھی حلقۂ نا معتبر میں رکھا جائے