کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے
ہوا بھی ہو گئی میثاق تیرگی میں فریق
کوئی چراغ نہ اب رہگزر میں رکھا جائے
اسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو
یہ التزام بھی عرض ہنر میں رکھا جائے
نہ جانے کون سے ترکش کے تیر کب چل جائیں
نشان مہر کمان سپر میں رکھا جائے
وفا گمان ہی ٹھہری تو کیا ضرور کہ اب
لحاظ ہمسفری بھی سفر میں رکھا جائے
ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش
عذاب دربدری کس کے گھر میں رکھا جائے
ہمیں بھی عافیت جاں کا ہے خیال بہت
ہمیں بھی حلقۂ نا معتبر میں رکھا جائے
غزل
کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
افتخار عارف