جنوں کا رنگ بھی ہو شعلۂ نمو کا بھی ہو
سکوت شب میں اک انداز گفتگو کا بھی ہو
میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں
عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو
وہ جس کے چاک گریباں پہ تہمتیں ہیں بہت
اسی کے ہاتھ میں شاید ہنر رفو کا بھی ہو
وہ جس کے ڈوبتے ہی ناؤ ڈگمگانے لگی
کسے خبر وہی تارا ستارہ جو کا بھی ہو
ثبوت محکمیٔ جاں تھی جس کی برش ناز
اسی کی تیغ سے رشتہ رگ گلو کا بھی ہو
وفا کے باب میں کار سخن تمام ہوا
مری زمین پہ اک معرکہ لہو کا بھی ہو
غزل
جنوں کا رنگ بھی ہو شعلۂ نمو کا بھی ہو
افتخار عارف