EN हिंदी
افتخار عارف شیاری | شیح شیری

افتخار عارف شیر

105 شیر

خزانۂ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ
ہم اہل مہر و محبت ہیں دل نکال کے رکھ

افتخار عارف




خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

افتخار عارف




کھلا فریب محبت دکھائی دیتا ہے
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں

افتخار عارف




خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

افتخار عارف




کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے

افتخار عارف




کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں
عجب طرح کی گھٹن ہے ہوا کے لہجے میں

افتخار عارف




مآل عزت سادات عشق دیکھ کے ہم
بدل گئے تو بدلنے پہ اتنی حیرت کیا

افتخار عارف




میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرا خدا
اجاڑ دے مری مٹی کو در بدر کر دے

افتخار عارف




میں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی
ہزار شیوۂ حسن بیاں کے ہوتے ہوئے

افتخار عارف