تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
افتخار عارف
تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں
افتخار عارف
امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
افتخار عارف
اسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو
یہ التزام بھی عرض ہنر میں رکھا جائے
افتخار عارف
وفا کے باب میں کار سخن تمام ہوا
مری زمین پہ اک معرکہ لہو کا بھی ہو
افتخار عارف
وفا کی خیر مناتا ہوں بے وفائی میں بھی
میں اس کی قید میں ہوں قید سے رہائی میں بھی
افتخار عارف
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
افتخار عارف
وہی فراق کی باتیں وہی حکایت وصل
نئی کتاب کا ایک اک ورق پرانا تھا
افتخار عارف
وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا
اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں
افتخار عارف