EN हिंदी
افتخار عارف شیاری | شیح شیری

افتخار عارف شیر

105 شیر

میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

افتخار عارف




میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے

افتخار عارف




منصب نہ کلاہ چاہتا ہوں
تنہا ہوں گواہ چاہتا ہوں

افتخار عارف




مٹی کی گواہی سے بڑی دل کی گواہی
یوں ہو تو یہ زنجیر یہ زنداں بھی مرا ہے

افتخار عارف




منہدم ہوتا چلا جاتا ہے دل سال بہ سال
ایسا لگتا ہے گرہ اب کے برس ٹوٹتی ہے

افتخار عارف




مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

افتخار عارف




صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے

افتخار عارف




مرے سارے حرف تمام حرف عذاب تھے
مرے کم سخن نے سخن کیا تو خبر ہوئی

افتخار عارف




مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

افتخار عارف