کوئی مژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے
روز اک تازہ خبر خلق خدا چاہتی ہے
موج خوں سر سے گزرنی تھی سو وہ بھی گزری
اور کیا کوچۂ قاتل کی ہوا چاہتی ہے
شہر بے مہر میں لب بستہ غلاموں کی قطار
نئے آئین اسیری کی بنا چاہتی ہے
کوئی بولے کے نہ بولے قدم اٹھیں نہ اٹھیں
وہ جو اک دل میں ہے دیوار اٹھا چاہتی ہے
ہم بھی لبیک کہیں اور فسانہ بن جائیں
کوئی آواز سر کوہ ندا چاہتی ہے
یہی لو تھی کہ الجھتی رہی ہر رات کے ساتھ
اب کے خود اپنی ہواؤں میں بجھا چاہتی ہے
عہد آسودگی جاں میں بھی تھا جاں سے عزیز
وہ قلم بھی مرے دشمن کی انا چاہتی ہے
بہر پامالی گل آئی ہے اور موج خزاں
گفتگو میں روش باد صبا چاہتی ہے
خاک کو ہمسر مہتاب کیا رات کی رات
خلق اب بھی وہی نقش کف پا چاہتی ہے
غزل
کوئی مژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے
افتخار عارف