EN हिंदी
افتخار عارف شیاری | شیح شیری

افتخار عارف شیر

105 شیر

یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے

افتخار عارف




یہ ساری جنتیں یہ جہنم عذاب و اجر
ساری قیامتیں اسی دنیا کے دم سے ہیں

افتخار عارف




یہ تیرے میرے چراغوں کی ضد جہاں سے چلی
وہیں کہیں سے علاقہ ہوا کا لگتا ہے

افتخار عارف




یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

افتخار عارف




زمانہ ہو گیا خود سے مجھے لڑتے جھگڑتے
میں اپنے آپ سے اب صلح کرنا چاہتا ہوں

افتخار عارف




زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی

افتخار عارف