میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں
عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو
افتخار عارف
میں جس کو ایک عمر سنبھالے پھرا کیا
مٹی بتا رہی ہے وہ پیکر مرا نہ تھا
افتخار عارف
میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
افتخار عارف
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے
افتخار عارف
منصب نہ کلاہ چاہتا ہوں
تنہا ہوں گواہ چاہتا ہوں
افتخار عارف
مرا خوش خرام بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی
افتخار عارف
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
افتخار عارف
مرے سارے حرف تمام حرف عذاب تھے
مرے کم سخن نے سخن کیا تو خبر ہوئی
افتخار عارف
مٹی کی گواہی سے بڑی دل کی گواہی
یوں ہو تو یہ زنجیر یہ زنداں بھی مرا ہے
افتخار عارف