مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
افتخار عارف
منہدم ہوتا چلا جاتا ہے دل سال بہ سال
ایسا لگتا ہے گرہ اب کے برس ٹوٹتی ہے
افتخار عارف
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
افتخار عارف
رنگ سے خوشبوؤں کا ناتا ٹوٹتا جاتا ہے
پھول سے لوگ خزاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
افتخار عارف
راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا
اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی
افتخار عارف
روش میں گردش سیارگاں سے اچھی ہے
زمیں کہیں کی بھی ہو آسماں سے اچھی ہے
افتخار عارف
رند مسجد میں گئے تو انگلیاں اٹھنے لگیں
کھل اٹھے میکش کبھی زاہد جو ان میں آ گئے
افتخار عارف
روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ
رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
افتخار عارف
سب لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے ساتھ تھے
اک میں ہی تھا کہ کوئی بھی لشکر مرا نہ تھا
افتخار عارف