EN हिंदी
افتخار عارف شیاری | شیح شیری

افتخار عارف شیر

105 شیر

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

افتخار عارف




سمندر کے کنارے ایک بستی رو رہی ہے
میں اتنی دور ہوں اور مجھ کو وحشت ہو رہی ہے

افتخار عارف




سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں

افتخار عارف




شگفتہ لفظ لکھے جا رہے ہیں
مگر لہجوں میں ویرانی بہت ہے

افتخار عارف




شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا

افتخار عارف




سپاہ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر
کس اہتمام سے پروردگار شب نکلا

افتخار عارف




ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا
ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا

افتخار عارف




صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے

افتخار عارف




تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

افتخار عارف