تھکن تو اگلے سفر کے لیے بہانہ تھا
اسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
متاع جاں کا بدل ایک پل کی سرشاری
سلوک خواب کا آنکھوں سے تاجرانہ تھا
ہوا کی کاٹ شگوفوں نے جذب کر لی تھی
تبھی تو لہجۂ خوشبو بھی جارحانہ تھا
وہی فراق کی باتیں وہی حکایت وصل
نئی کتاب کا ایک اک ورق پرانا تھا
قبائے زرد نگار خزاں پہ سجتی تھی
تبھی تو چال کا انداز خسروانہ تھا
غزل
تھکن تو اگلے سفر کے لیے بہانہ تھا
افتخار عارف