EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

مرا اکیلا خدا یاد آ رہا ہے مجھے
یہ سوچتا ہوا گرجا بلا رہا ہے مجھے

ساقی فاروقی




نئے چراغ جلا یاد کے خرابے میں
وطن میں رات سہی روشنی منایا کر

ساقی فاروقی




وہی آنکھوں میں اور آنکھوں سے پوشیدہ بھی رہتا ہے
مری یادوں میں اک بھولا ہوا چہرا بھی رہتا ہے

ساقی فاروقی




دل جو ٹوٹا ہے تو پھر یاد نہیں ہے کوئی
اس خرابے میں اب آباد نہیں ہے کوئی

سرفراز خالد




جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے

محمد رفیع سودا




میں سوچتا ہوں مگر یاد کچھ نہیں آتا
کہ اختتام کہاں خواب کے سفر کا ہوا

شہریار




یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں
دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے

شہزاد احمد