EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

ناصر کاظمی




دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

ناصر کاظمی




دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا

ناصر کاظمی




اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے

ناصر کاظمی




تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں
شب بھر تمہاری یاد نے سونے نہیں دیا

ناصر کاظمی




وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

ناصر کاظمی




یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا

ناصر کاظمی