EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

یوں برستی ہیں تصور میں پرانی یادیں
جیسے برسات کی رم جھم میں سماں ہوتا ہے

قتیل شفائی




اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

راحتؔ اندوری




ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں
ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں

راہی معصوم رضا




آج کیا لوٹتے لمحات میسر آئے
یاد تم اپنی عنایات سے بڑھ کر آئے

راجیندر منچندا بانی




ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی

راجیندر منچندا بانی




اداس شام کی یادوں بھری سلگتی ہوا
ہمیں پھر آج پرانے دیار لے آئی

راجیندر منچندا بانی




آہٹیں سن رہا ہوں یادوں کی
آج بھی اپنے انتظار میں گم

رسا چغتائی