EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

ہائے وہ لوگ جو دیکھے بھی نہیں
یاد آئیں تو رلا دیتے ہیں

محمد علوی




ان دنوں گھر سے عجب رشتہ تھا
سارے دروازے گلے لگتے تھے

محمد علوی




وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

the love that 'tween us used to be, you may, may not recall
those promises of constancy, you may, may not recall

مومن خاں مومن




کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے
کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا

منور رانا




تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ
تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے

منور رانا




آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی

منیر نیازی




وہ سردیوں کی دھوپ کی طرح غروب ہو گیا
لپٹ رہی ہے یاد جسم سے لحاف کی طرح

مصور سبزواری