EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

آج کچھ رنگ دگر ہے مرے گھر کا خالدؔ
سوچتا ہوں یہ تری یاد ہے یا خود تو ہے

خالد شریف




بسی ہے سوکھے گلابوں کی بات سانسوں میں
کوئی خیال کسی یاد کے حصار میں ہے

خالدہ عظمی




میرے دشمن نہ مجھ کو بھول سکے
ورنہ رکھتا ہے کون کس کو یاد

خلیلؔ الرحمن اعظمی




مری نظر میں وہی موہنی سی مورت ہے
یہ رات ہجر کی ہے پھر بھی خوبصورت ہے

خلیلؔ الرحمن اعظمی




تمام یادیں مہک رہی ہیں ہر ایک غنچہ کھلا ہوا ہے
زمانہ بیتا مگر گماں ہے کہ آج ہی وہ جدا ہوا ہے

خلیلؔ الرحمن اعظمی




یوں جی بہل گیا ہے تری یاد سے مگر
تیرا خیال تیرے برابر نہ ہو سکا

خلیلؔ الرحمن اعظمی




سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں
تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں

خمارؔ بارہ بنکوی