EN हिंदी
بدن چراتے ہوئے روح میں سمایا کر | شیح شیری
badan churaate hue ruh mein samaya kar

غزل

بدن چراتے ہوئے روح میں سمایا کر

ساقی فاروقی

;

بدن چراتے ہوئے روح میں سمایا کر
میں اپنی دھوپ میں سویا ہوا ہوں سایا کر

یہ اور بات کہ دل میں گھنا اندھیرا ہے
مگر زبان سے تو چاندنی لٹایا کر

چھپا ہوا ہے تری عاجزی کے ترکش میں
انا کے تیر اسی زہر میں بجھایا کر

کوئی سبیل کہ پیاسے پناہ مانگتے ہیں
سفر کی راہ میں پرچھائیاں بچھایا کر

خدا کے واسطے موقع نہ دے شکایت کا
کہ دوستی کی طرح دشمنی نبھایا کر

عجب ہوا کہ گرہ پڑ گئی محبت میں
جو ہو سکے تو جدائی میں راس آیا کر

نئے چراغ جلا یاد کے خرابے میں
وطن میں رات سہی روشنی منایا کر