طلسم ختم چلو آہ بے اثر کا ہوا
وہ دیکھو جسم برہنہ ہر اک شجر کا ہوا
سناؤں کیسے کہ سورج کی زد میں ہیں سب لوگ
جو حال رات کو پرچھائیوں کے گھر کا ہوا
صدا کے سائے میں سناٹوں کو پناہ ملی
عجب کہ شہر میں چرچا نہ اس خبر کا ہوا
خلا کی دھند ہی آنکھوں پہ مہربان رہی
حریف کوئی افق کب مری نظر کا ہوا
میں سوچتا ہوں مگر یاد کچھ نہیں آتا
کہ اختتام کہاں خواب کے سفر کا ہوا
غزل
طلسم ختم چلو آہ بے اثر کا ہوا
شہریار