EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

یاد بھی تیری مٹ گئی دل سے
اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو

ابرار احمد




تمام رات وہ پہلو کو گرم کرتا رہا
کسی کی یاد کا نشہ شراب جیسا تھا

ابرار اعظمی




ابھی صحیفۂ جاں پر رقم بھی کیا ہوگا
ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی

ادا جعفری




یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

عدیم ہاشمی




یادوں نے اسے توڑ دیا مار کے پتھر
آئینے کی خندق میں جو پرچھائیں پڑی تھی

عادل منصوری




ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں
تری یاد آنکھیں دکھانے لگی

عادل منصوری




خبر دیتی ہے یاد کرتا ہے کوئی
جو باندھا ہے ہچکی نے تار آتے آتے

افسر الہ آبادی