EN हिंदी
وہی آنکھوں میں اور آنکھوں سے پوشیدہ بھی رہتا ہے | شیح شیری
wahi aankhon mein aur aankhon se poshida bhi rahta hai

غزل

وہی آنکھوں میں اور آنکھوں سے پوشیدہ بھی رہتا ہے

ساقی فاروقی

;

وہی آنکھوں میں اور آنکھوں سے پوشیدہ بھی رہتا ہے
مری یادوں میں اک بھولا ہوا چہرا بھی رہتا ہے

جب اس کی سرد مہری دیکھتا ہوں بجھنے لگتا ہوں
مجھے اپنی اداکاری کا اندازہ بھی رہتا ہے

میں ان سے بھی ملا کرتا ہوں جن سے دل نہیں ملتا
مگر خود سے بچھڑ جانے کا اندیشہ بھی رہتا ہے

جو ممکن ہو تو پر اسرار دنیاؤں میں داخل ہو
کہ ہر دیوار میں اک چور دروازہ بھی رہتا ہے

بس اپنی بے بسی کی ساتویں منزل میں زندہ ہوں
یہاں پر آگ بھی رہتی ہے اور نوحہ بھی رہتا ہے