شعر تو سب کہتے ہیں کیا ہے
چپ رہنے میں اور مزا ہے
کیا پایا دیوان چھپا کر
لو ردی کے مول بکا ہے
دروازے پر پہرہ دینے
تنہائی کا بھوت کھڑا ہے
گھر میں کیا آیا کہ مجھ کو
دیواروں نے گھیر لیا ہے
میں ناحق دن کاٹ رہا ہوں
کون یہاں سو سال جیا ہے
آگے پیچھے کوئی نہیں ہے
کوئی نہیں تو پھر یہ کیا ہے
باہر دیکھ چکوں تو دیکھوں
اندر کیا ہونے والا ہے
ایک غزل اور کہہ لو علویؔ
پھر برسوں تک چپ رہنا ہے
غزل
شعر تو سب کہتے ہیں کیا ہے
محمد علوی