EN हिंदी
کچھ تو اس دل کو سزا دی جائے | شیح شیری
kuchh to is dil ko saza di jae

غزل

کچھ تو اس دل کو سزا دی جائے

محمد علوی

;

کچھ تو اس دل کو سزا دی جائے
اس کی تصویر ہٹا دی جائے

ڈھونڈنے میں بھی مزہ آتا ہے
کوئی شے رکھ کے بھلا دی جائے

نام لکھ لکھ کے ترا کاغذ پر
روشنائی بھی گرا دی جائے

ناؤ کاغذ کی بنا کر اس کو
بہتے پانی میں بہا دی جائے

رات کو چپکے سے اک اک گھر کی
کیوں نہ زنجیر لگا دی جائے

نیند میں چونک پڑے گا کوئی
آؤ اس در پہ صدا دی جائے

آخری سانس مہک جائے گی
اس کے دامن کی ہوا دی جائے

سب کے سب یاد چلے آتے ہیں
آج کس کس کو دعا دی جائے

علویؔ ہوٹل میں ٹھہر سکتا ہے
کیوں اسے گھر میں جگہ دی جائے