خواب میں ایک مکاں دیکھا تھا
پھر نہ کھڑکی تھی نہ دروازہ تھا
سونے رستے پہ سر شام کوئی
گھر کی یادوں میں گھرا بیٹھا تھا
لوگ کہتے ہیں کہ مجھ سا تھا کوئی
وہ جو بچوں کی طرح رویا تھا
رات تھی اور کوئی ساتھ نہ تھا
چاند بھی دور کھڑا ہنستا تھا
ایک میلا سا لگا تھا دل میں
میں اکیلا ہی پھرا کرتا تھا
ایسا ہنگامہ نہ تھا جنگل میں
شہر میں آئے تو ڈر لگتا تھا
غم کے دریا میں تری یادوں کا
اک جزیرہ سا ابھر آیا تھا
کون آیا تھا مکاں میں علویؔ
کس نے دروازہ ابھی کھولا تھا
غزل
خواب میں ایک مکاں دیکھا تھا
محمد علوی