EN हिंदी
ابھی تو اور بھی دن بارشوں کے آنے تھے | شیح شیری
abhi to aur bhi din barishon ke aane the

غزل

ابھی تو اور بھی دن بارشوں کے آنے تھے

محمد علوی

;

ابھی تو اور بھی دن بارشوں کے آنے تھے
کرشمے سارے اسے آج ہی دکھانے تھے

حقارتیں ہی ملیں ہم کو زنگ آلودہ
دلوں میں یوں تو کئی قسم کے خزانے تھے

یہ دشت تیل کا پیاسا نہ تھا خدا وندا
یہاں تو چار چھ دریا ہمیں بہانے تھے

کسی سے کوئی تعلق رہا نہ ہو جیسے
کچھ اس طرح سے گزرتے ہوئے زمانے تھے

پرندے دور فضاؤں میں کھو گئے علویؔ
اجاڑ اجاڑ درختوں پہ آشیانے تھے