سوچتے رہتے ہیں اکثر رات میں
ڈوب کیوں جاتے ہیں منظر رات میں
کس نے لہرائی ہیں زلفیں دور تک
کون پھرتا ہے کھلے سر رات میں
چاندنی پی کر بہک جاتی ہے رات
چاند بن جاتا ہے ساغر رات میں
چوم لیتے ہیں کناروں کی حدیں
جھوم اٹھتے ہیں سمندر رات میں
کھڑکیوں سے جھانکتی ہے روشنی
بتیاں جلتی ہیں گھر گھر رات میں
رات کا ہم پر بڑا احسان ہے
رو لیا کرتے ہیں کھل کر رات میں
دل کا پہلو میں گماں ہوتا نہیں
آنکھ بن جاتی ہے پتھر رات میں
علویؔ صاحب وقت ہے آرام کا
سو رہو سب کچھ بھلا کر رات میں
غزل
سوچتے رہتے ہیں اکثر رات میں
محمد علوی