کیا کہتے کیا جی میں تھا
شور بہت بستی میں تھا
پہلی بوند گری ٹپ سے
پھر سب کچھ پانی میں تھا
چھتیں گریں گھر بیٹھ گئے
زور ایسا آندھی میں تھا
موجیں ساحل پھاند گئیں
دریا گلی گلی میں تھا
میری لاش نہیں ہے یہ
کیا اتنا بھاری میں تھا
آخر طوفاں گزر گیا
دیکھا تو باقی میں تھا
چھوڑ گیا مجھ کو علویؔ
شاید وہ جلدی میں تھا
غزل
کیا کہتے کیا جی میں تھا
محمد علوی