EN हिंदी
آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں | شیح شیری
office mein bhi ghar ko khula pata hun main

غزل

آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں

محمد علوی

;

آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں
ٹیبل پر سر رکھ کر سو جاتا ہوں میں

گلی گلی میں اپنے آپ کو ڈھونڈتا ہوں
اک اک کھڑکی میں اس کو پاتا ہوں میں

اپنے سب کپڑے اس کو دے آتا ہوں
اس کا ننگا جسم اٹھا لاتا ہوں میں

بس کے نیچے کوئی نہیں آتا پھر بھی
بس میں بیٹھ کے بے حد گھبراتا ہوں میں

مرنا ہے تو ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں
ٹھہر ذرا گھر جا کے ابھی آتا ہوں میں

گاڑی آتی ہے لیکن آتی ہی نہیں
ریل کی پٹری دیکھ کے تھک جاتا ہوں میں

علویؔ پیارے سچ سچ کہنا کیا اب بھی
اسی کو روتا دیکھ کے یاد آتا ہوں میں