رات ملی تنہائی ملی اور جام ملا
گھر سے نکلے تو کیا کیا آرام ملا
ایک بہت ہی بوجھل شام کے آتے ہی
سونے دل کو یادوں کا کہرام ملا
وہی محلہ وہی پرانا گھر تھا وہاں
دروازے پر لیکن اور ہی نام ملا
کام کی خاطر دن بھر دوڑ لگاتے ہیں
بیکاری میں آخر کچھ تو کام ملا
ملا نہ علویؔ نام ادب کے دفتر میں
پانچ برس چپ رہنے کا انعام ملا
غزل
رات ملی تنہائی ملی اور جام ملا
محمد علوی