EN हिंदी
رات ملی تنہائی ملی اور جام ملا | شیح شیری
raat mili tanhai mili aur jam mila

غزل

رات ملی تنہائی ملی اور جام ملا

محمد علوی

;

رات ملی تنہائی ملی اور جام ملا
گھر سے نکلے تو کیا کیا آرام ملا

ایک بہت ہی بوجھل شام کے آتے ہی
سونے دل کو یادوں کا کہرام ملا

وہی محلہ وہی پرانا گھر تھا وہاں
دروازے پر لیکن اور ہی نام ملا

کام کی خاطر دن بھر دوڑ لگاتے ہیں
بیکاری میں آخر کچھ تو کام ملا

ملا نہ علویؔ نام ادب کے دفتر میں
پانچ برس چپ رہنے کا انعام ملا