جاتی ہوئی لڑکی کو صدا دینا چاہیئے
گھر ہو تو برا کیا ہے پتہ دینا چاہیئے
ہونٹوں کے گلابوں کو چرا لینے سے پہلے
بالوں میں کوئی پھول کھلا دینا چاہیئے
ڈر ہے کہیں کمرے میں نہ گھس آئے یہ منظر
کھڑکی کو کہیں اور ہٹا دینا چاہیئے
پر تول کے بیٹھی ہے مگر اڑتی نہیں ہے
تصویر سے چڑیا کو اڑا دینا چاہیئے
صدیوں سے کنارے پہ کھڑا سوکھ رہا ہے
اس شہر کو دریا میں گرا دینا چاہیئے
مرنے میں مزا ہے مگر اتنا تو نہیں ہے
علویؔ تمہیں قاتل کو دعا دینا چاہیئے
غزل
جاتی ہوئی لڑکی کو صدا دینا چاہیئے
محمد علوی