EN हिंदी
دھوپ نکلی دن سہانے ہو گئے | شیح شیری
dhup nikli din suhane ho gae

غزل

دھوپ نکلی دن سہانے ہو گئے

ناصر کاظمی

;

دھوپ نکلی دن سہانے ہو گئے
چاند کے سب رنگ پھیکے ہو گئے

کیا تماشا ہے کہ بے ایام گل
ٹہنیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے

ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہیں
ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے

اب تو خوش ہو جائیں ارباب ہوس
جیسے وہ تھے ہم بھی ویسے ہو گئے

حسن اب ہنگامہ آرا ہو تو ہو
عشق کے دعوے تو جھوٹے ہو گئے

اے سکوت شام غم یہ کیا ہوا
کیا وہ سب بیمار اچھے ہو گئے

دل کو تیرے غم نے پھر آواز دی
کب کے بچھڑے پھر اکٹھے ہو گئے

آؤ ناصرؔ ہم بھی اپنے گھر چلیں
بند اس گھر کے دریچے ہو گئے