EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے
نہ دوا یاد رہے اور نہ دعا یاد رہے

he who is stricken by love, remembers naught at all
no cure will come to mind, nor prayer will recall

شیخ ابراہیم ذوقؔ




آج تبسمؔ سب کے لب پر
افسانے ہیں میرے تیرے

صوفی تبسم




دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

صوفی تبسم




مسافروں سے محبت کی بات کر لیکن
مسافروں کی محبت کا اعتبار نہ کر

عمر انصاری




عشق پھر عشق ہے آشفتہ سری مانگے ہے
ہوش کے دور میں بھی جامہ دری مانگے ہے

عنوان چشتی




اک روز کھیل کھیل میں ہم اس کے ہو گئے
اور پھر تمام عمر کسی کے نہیں ہوئے

وپل کمار




جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے

ولی محمد ولی