EN हिंदी
کس نے غم کے جال بکھیرے | شیح شیری
kis ne gham ke jal bikhere

غزل

کس نے غم کے جال بکھیرے

صوفی تبسم

;

کس نے غم کے جال بکھیرے
صبح اندھیرے شام سویرے

اس دنیا میں کام نہ آئے
آنسو تیرے آنسو میرے

رات کی کیفیت یاد آئی
شام ہوئی ہے صبح سویرے

حسن کا دامن پھر بھی خالی
عشق نے لاکھوں اشک بکھیرے

مجھ کو دنیا سے کیا مطلب
دل بھی میرا تم بھی میرے

رنگیں رنگیں عشق کی راہیں
منزل منزل حسن کے ڈیرے

آج تبسمؔ سب کے لب پر
افسانے ہیں میرے تیرے